Add To collaction

صنف نازک کی پسند کی شادی

آج پریشے حیات پھر سے مجمع کی اک کثیر تعداد کو اپنی باتوں سے فیضیاب کرنے والی ہیں۔۔۔


کلکتہ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں آج دونوں صنف کے ساتھ ہر عمر کے لوگ موجود تھے۔۔۔کیوں کہ یہ ایک کمبائنڈ لیکچر تھا تو طلباء کے ساتھ اُن کے والدین کی کثیر تعداد موجود تھی۔۔۔

آج پریشے حیات عبایا میں تھی جس سے بس اُنکی گہری چمکی سیاہ پرکشش آنکھیں ہی نظر آرہی تھی۔۔۔

آج کا عنوان بھی دورے حاضر کو دیکھتے ہوئے چنا گیا تھا "صنف نازک کی پسند کی شادی" سامعین کو سنتے ہی عجیب لگا۔۔۔ چہ میگوئیاں شروع ہوگئی

سبھی لوگ کافی متجسس نظر آنے لگے عنوان کو سن کر۔۔۔سب ہمہ تن گوش ہو کر پریشے حیات کہ بولنے کا انتظار کرنے لگے۔۔۔

اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مائک سے پریشے حیات کی خوبصورت اور نرم آواز اُبھری جو کہ اُنکا خاصا ہے۔۔۔اور سامعین پر سحر تا ری ہوگیا۔۔۔

آپ تمام حاضرین کا شکریہ جو ہمیں سننے کہ لیے یہاں موجود ہوئے۔۔۔تو بغیر تاخیر کے بات شروع کرتے ہیں۔۔۔جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ہمارا آج کا موضوع ہے"صنف نازک کی پسند کی شادی" کہنے۔ کےساتھ اُنہوں نے مسکرا کر سامعین کو دیکھا جو ہمہ تن گوش تھے۔۔۔

کافی ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہو گا کہ آخر ہم نے یہ موضوع کیوں چنا؟تو اُنکے سوال کاجواب یہ ہے کہ ہم نے آج کے دور میں یہ چیز بڑی عام ہوتے دیکھی۔۔۔جہاں پسند کی شادی دھڑلے سے کی جا رہی۔۔ہر حد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔۔۔مّاں باپ کی عزت کو روندھتے ہوئے۔۔۔لیکن یہ کام زیادہ تر صنف مخالف کی طرف سے واقع ہو رہے ہیں گو کہ اس میں صنف نازک کی شمولیت بھی قابل غور ہے۔۔۔لکین پھر بھی آپ سب سوچ رہیں ہیں گے ہم نے فقط "صنف نازک " کا ہی نام کیوں لیا ؟تو وہ آپ آگے کی باتوں سے سمجھ جائیں گے۔۔۔

ہم ہر گز ایسی لڑکیوں اور لڑکوں کی حمایت نہیں کرتے۔۔۔ليکن اج یہاں ہم کچھ خاص پوائنٹس پر بات کریں گے کچھ حساس پہلوؤں پر جو کہ بہت اہم ہے۔۔۔ہم لوگ اج اُن خاص لڑکیوں کی اکثریت کی بات کریں گے جو زندہ ہوتے بھی مردہ تصور کرتی ہیں۔۔۔جو کسی اور کی محبت دل میں رکھتے ہوئے کسی اور سے وفا نبھانے پر پابند ہوتی ہیں اور نبھاتی بھی ہیں۔۔۔ ہم اس ایک خاص اکثریت کا ذکر کر رہیں جو ماں باپ کی عزت پر اپنی ذات ،اپنی خوشی،اپنے احساس تک کی قربانی دیتی ہیں۔۔۔جہاں آج بھی صنف نازک اپنی بات کہنے کی سکت نہیں رکھتی۔۔۔جہاں آج بھی صنف نازک اپنی پسند بتانے پر زندہ درگور کر دی جاتی ہے۔۔۔اور جہاں آج بھی صنف نازک صنف مخالف کی پیر کی جوتی ہے۔۔

کیوں آخر ؟ کیوں؟ جو حق اسلام ہمیں چودہ سو سال پہلے دے چکا ہے وہ یہ معاشرہ آج نہیں دیتا۔۔۔اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون، خاتونِ جنت امّاں خدیجہ نے خود رسول اللہ کو نکاح کا پیغام بھجوایا تھا۔۔۔اور رسول اللہ نے خود اپنی دختر سے نکاح سے پہلے اُنکی رضامندی پوچھی تھی ۔۔۔تو آج کے دور میں وہ اکثریت اپنی پسند بتانے پر غیرت کی بھینٹ کیوں چڑ ھ جاتی ہے۔۔۔کیوں اس پر بد کردار ی کی تہمت لگائی جاتی ہے۔۔۔کیوں ؟ کیوں کہ وہ لڑکی ہے صنف نازک ہے ۔۔۔ہم کسی لڑکے کو اُسکی پسند بتانے پر بدکردار نہیں کہتے۔۔۔بلکہ ہم تو کہتے ہیں بیٹا ہے جہاں کہہ رہا شادی کر دیجاۓ ورنہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔۔۔اور جب بات لڑکیوں کی آتی ہے تو پتہ نہیں کون سی غیرت جاگ جاتی ہے۔۔۔یہ لوگ آخر بھول کیوں جاتے ہیں یہی صنف ہے جو کبھی ماں ، کبھی بہن ،کبھی بیٹی اور کبھی بیوی بن کر آپ سے وفا نبھاتی ہے ،محبت کرتی ہے ،خیال کرتی ہے تو اس کے احساس کو سمجھتے وقت آپ کہاں سوئے رہتے ہیں۔۔۔

ہم یہ نہیں کہتے جہاں پسند ہو اس سے نکاح بھی کر دیا جائے ۔۔۔گر وہ پسند اس قابل نہیں کہ اس کو قبول کیا جائے تو آپ اپنی بیٹیوں کو سمجھائیں۔۔۔پیار سے دلائل دیں۔۔۔لیکن ہمارے یہاں معاملہ اُلٹ ہی ہے ۔۔۔ہمارے یہاں اگر پسند قابل قبول ہے تب بھی والدین قبول نہیں کرتے۔۔۔بعض دفعہ تو بیٹیوں سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے۔۔۔ہمارے معاشرے نے اتنی ترقی کی لیکن ہمارے معاشرے کی سوچ اُس کی ذہنیت آج بھی اسی مقام پر ہے۔۔۔جہاں بابا کی دلاری اماں کی پیاری بھائی بہنوں کی لاڈلی اگر کسی کو پسند کرے کیسی سے محبت کرے تو وہ سب سے بڑی بد کردار ،بےادب ہو جاتی ہے۔۔۔سر سے اتار کر قدموں میں ڈال دی جاتی ہے ۔۔۔آخر کیوں؟ کیوں کہ اس نے کسی کو پسند کیا اس لیے۔۔۔بیشتر واقعات میں تو لڑکیاں بتاتی بھی نہیں کہ ماں باپ کا کیا رد عمل ہوگا اور اگر بتا دیں تو اُنکو سننے کے بجائے اپنی تربیت کی غلطی اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ دیتے ہیں۔۔۔اس بات پر خوش ہونے کہ بجائے کہ آپ کوبتادیا کوئی غلط قدم نہیں اٹھایا اُلٹا اُنھیں بُرا بھلا کہنے لگتے ہیں۔۔۔محبت سے سمجھائیں ،تحمیل سے سنیں لیکن ایسا ہوتا ہی کب ہے۔۔۔پچاس فیصد سے زیادہ گھر سے بھاگنے کہ یا زبردستی کی شادی کے واقعات اسی لیے عام ہیں کیوں کہ والدین سمنجھنا نہیں چاہتے۔۔۔

اپنی بات کا اختتام ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ ہم نے کسی بھی والدین کو یہ نہیں کہا کہ آپ اپنی بچیوں کی شادی اُنکی پسند سے کریں چاہے مقابل کیسا بھی ہو ۔۔۔لیکن انہیں سمجھیں ،محبت سے سمجھائیں ۔۔۔یہ آپ کی آنے والی نسلوں کی امین ہیں ۔۔۔خیال کریں انکا یہ وہ پھول ہیں جو ذرا سی بے احتیاطی پر مرجھا جاتی ہیں اور ذرا سی توجہ پر کھل اٹھتی ہیں۔۔۔انہیں ان کی اہمیت بتائیں۔۔۔انہیں اعتماد دیں اُن پر یقین کریں اور انہیں یقین کرنا سیکھایں۔۔۔ہمارا معاشرہ تب تک مکمل ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس معاشرے کے سارے لوگ ایک ساتھ نہیں بڑھتے تب تک ترقی ادھوری ہے۔۔۔۔۔شکریہ!

ختم شدہ
✍️۔از ۔ شفق شمیم شفق

   22
17 Comments

Manzar Ansari

08-Jun-2022 11:43 PM

Good

Reply

Reyaan

07-Jun-2022 08:44 PM

👌👌👌

Reply

Milind salve

06-Jun-2022 12:54 PM

بہترین

Reply